Friday, June 14, 2024

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں || زین جمیل

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں شمعِ وصالِ دلِ قرار کو جلائے بیٹھے ہیں آمدِ راحتِ دل و جاں ہونے کو ہے اس لیے دروازہِ دہلیز کے سب قُفل ہٹائے بیٹھے ہیں دل شدت سے تڑپ رہا ہے آپ سے ملنے کو آپ ہیں کہ یونہی فاصلے بڑھائے بیٹھے ہیں نہی ہو رہا انتظار مرے قرار آ کے گلے لگا بادل بے صبری کے اب سر پر آئے بیٹھے ہیں قسمت لاکھ مخالف ہماری قربت کے لیکن ہم بھی ملاقات کی قسم اُٹھائے بیٹھے ہیں اپنی زندگی کی محدود سی ندی کے حصار میں ہم تری محبت کا سارا سمندر سمائے بیٹھے ہیں عشق جاوِدانی ہے آپ سے تا حیات رہے گا ہم تو فقط خوفِ فراق سے گھبرائے بیٹھے ہیں یہ وفا ہے ہماری جو تری فرقتِ سے بیزار نہی ہوئے زین وگرنہ تو لوگ یہاں خدا کو بھلائے بیٹھے ہیں زین جمیل ✍️

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں || زین جمیل

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں شمعِ وصالِ دلِ قرار کو جلائے بیٹھے ہیں آمدِ راحتِ دل و جاں ہونے کو ہے اس لیے دروازہِ دہلیز کے سب قُفل ہ...