Thursday, April 4, 2024

اچھی لگتی ہو

سج سنور کر رہا کرو اچھی لگتی ہو جھمکے ، بالیاں ، پازیب پہنا کرو اچھی لگتی ہو مسکراتے لب ہیں تمھارے خشبو بھرے غلاب اِن سے ہر وقت تبسم کیا کرو اچھی لگتی ہو کوئل کو زیب نہی دیتا یوں خموش رہنا کچھ نا کچھ کہا کرو اچھی لگتی ہو گیسو ہیں تمھارے جیسے رم جم ابر کی انہیں یونہی کھلے رکھا کرو اچھی لگتی ہو تمھاری قربت ہے میرے لیے سکونِ جاں جانم میرے پہلو میں بیٹھا کرو اچھی لگتی ہو وجودِ مرمریں ہے تمھارا قوسِ قزح میری جان تم ہر رنگ کو اوڑھا کرو اچھی لگتی ہو مانا کہ نگاہیں جھکا لینا ادبِ محبوب ہے لیکن تم میری آنکھوں میں دیکھا کرو اچھی لگتی ہو

No comments:

Post a Comment

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں || زین جمیل

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں شمعِ وصالِ دلِ قرار کو جلائے بیٹھے ہیں آمدِ راحتِ دل و جاں ہونے کو ہے اس لیے دروازہِ دہلیز کے سب قُفل ہ...