Friday, June 14, 2024

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں || زین جمیل

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں شمعِ وصالِ دلِ قرار کو جلائے بیٹھے ہیں آمدِ راحتِ دل و جاں ہونے کو ہے اس لیے دروازہِ دہلیز کے سب قُفل ہٹائے بیٹھے ہیں دل شدت سے تڑپ رہا ہے آپ سے ملنے کو آپ ہیں کہ یونہی فاصلے بڑھائے بیٹھے ہیں نہی ہو رہا انتظار مرے قرار آ کے گلے لگا بادل بے صبری کے اب سر پر آئے بیٹھے ہیں قسمت لاکھ مخالف ہماری قربت کے لیکن ہم بھی ملاقات کی قسم اُٹھائے بیٹھے ہیں اپنی زندگی کی محدود سی ندی کے حصار میں ہم تری محبت کا سارا سمندر سمائے بیٹھے ہیں عشق جاوِدانی ہے آپ سے تا حیات رہے گا ہم تو فقط خوفِ فراق سے گھبرائے بیٹھے ہیں یہ وفا ہے ہماری جو تری فرقتِ سے بیزار نہی ہوئے زین وگرنہ تو لوگ یہاں خدا کو بھلائے بیٹھے ہیں زین جمیل ✍️

Thursday, April 11, 2024

Tu Mill jaye to tujhy Pariyun sa Sajaun ga main

تو مل جائے تو تجھے پریوں سا سجاؤں گا میں دلِ جنت میں تیرا حسین محل بناؤں گا میں کوئی تجھے دیکھ کر تیری آرزو نا کرنے لگے سو تجھے دل کے گوشے میں چھپاؤں گا میں مجھے پسند ہے چھن چھن کا ساز جاناں شوق سے تیری کلایوں پے چوڑیاں چڑھاؤں گا میں مشکِ گُل میں اور بھی آ جائے گی تازگی دیکھنا جب تیرے نرم ہاتھوں کو گجرے پہناؤں گا میں چاند کو ہے ناز جو اُسکی چمکتی ہوئی چاندی پر کسی روز اُسکے روبرو تجھے لے جاؤں گا میں تم ہو وہ عطر جو فقط میرے لیے بنا ہے تمھاری خشبو فقط خود پے ہی لگاؤں گا میں دل تجھے چاہتا ہے تو تیرے ناز بھی اٹھائے گا تو ناز سے روٹھ جانا تجھے نازوں سے مناؤں گا میں زین جمیل ✍️

Thursday, April 4, 2024

اچھی لگتی ہو

سج سنور کر رہا کرو اچھی لگتی ہو جھمکے ، بالیاں ، پازیب پہنا کرو اچھی لگتی ہو مسکراتے لب ہیں تمھارے خشبو بھرے غلاب اِن سے ہر وقت تبسم کیا کرو اچھی لگتی ہو کوئل کو زیب نہی دیتا یوں خموش رہنا کچھ نا کچھ کہا کرو اچھی لگتی ہو گیسو ہیں تمھارے جیسے رم جم ابر کی انہیں یونہی کھلے رکھا کرو اچھی لگتی ہو تمھاری قربت ہے میرے لیے سکونِ جاں جانم میرے پہلو میں بیٹھا کرو اچھی لگتی ہو وجودِ مرمریں ہے تمھارا قوسِ قزح میری جان تم ہر رنگ کو اوڑھا کرو اچھی لگتی ہو مانا کہ نگاہیں جھکا لینا ادبِ محبوب ہے لیکن تم میری آنکھوں میں دیکھا کرو اچھی لگتی ہو

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں || زین جمیل

آپ سے ملاقات کی آس لگائے بیٹھے ہیں شمعِ وصالِ دلِ قرار کو جلائے بیٹھے ہیں آمدِ راحتِ دل و جاں ہونے کو ہے اس لیے دروازہِ دہلیز کے سب قُفل ہ...